• Home  
  • مُلّا-ایم ایل اے گٹھ جوڑ بے نقاب: بھارت کے خلاف ایک خاموش بغاوت
- Urdu Articles

مُلّا-ایم ایل اے گٹھ جوڑ بے نقاب: بھارت کے خلاف ایک خاموش بغاوت

ایک فعال جمہوریت میں، مذہب ذاتی معاملہ ہوتا ہے اور سیاست عوامی۔لیکن ہندوستان میں، مُلّا-ایم ایل اے اتحاد اس کا الٹ ثابت کرتا ہے —یہاں مذہب کو چھتوں سے بلند آواز میں نشر کیا جاتا ہے،جبکہ سیاست مساجد، درگاہوں، اور بریانی سے بھرے ڈرائنگ رومز میں سرگوشیوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔ یہ سیکولرزم نہیں۔یہ […]

Mullah MLA Alliance

ایک فعال جمہوریت میں، مذہب ذاتی معاملہ ہوتا ہے اور سیاست عوامی۔
لیکن ہندوستان میں، مُلّا-ایم ایل اے اتحاد اس کا الٹ ثابت کرتا ہے —
یہاں مذہب کو چھتوں سے بلند آواز میں نشر کیا جاتا ہے،
جبکہ سیاست مساجد، درگاہوں، اور بریانی سے بھرے ڈرائنگ رومز میں سرگوشیوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔

یہ سیکولرزم نہیں۔
یہ ایک سیاسی پونزی اسکیم ہے جہاں ایمان کرنسی ہے اور ووٹ فتووں کی طرح حاصل کیے جاتے ہیں۔

ووٹ جہاد کی ساخت: مُلّا کیا لے کر آتا ہے؟

آئیے اسے کھول کر سمجھتے ہیں:

مقامی اسلامی عالم، یعنی مُلّا، اب صرف اللہ کا بندہ نہیں رہا۔ وہ بن گیا ہے:

  • ایک بوتھ مینیجر
  • ایک پیغام پھیلانے والا
  • اور سب سے زیادہ خطرناک، ایک کمیونٹی کو متحرک کرنے والا ایجنٹ

الیکشن کے دوران وہ مذہبی تعلیمات کی بات نہیں کرتا۔
وہ یہ پوچھتا ہے:
"کون ہمارا ہے؟ کون تمہارا ہے؟”
یعنی کون خوشامدی ہے، اور کون سوال کرنے والا دشمن۔

یہ تبلیغ نہیں، بلکہ سیاسی برین واشنگ ہے — مذہبی فریضے کے لبادے میں۔

Mullah MLA Alliance
Vote Jihad: Through Mullah MLA Alliance

ایم ایل اے کا کردار: داڑھی خریدو، ووٹ سمیٹو

ایم ایل اے، جو کاغذ پر تو سیکولر ہوتا ہے لیکن عمل میں موقع پرست، وہ یہ کھیل اچھی طرح جانتا ہے:

  • مسجد کا ایک دورہ = 5000 ووٹ
  • ایک افطار پارٹی = اردو اخباروں میں شہ سرخی
  • ایک اردو شعر = لبرل ایلیٹ میں مقام

اور بدلے میں؟

  • مسلم اسکولوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح؟ کوئی سوال نہیں
  • غیر قانونی مدارس؟ نظرانداز
  • مسلم علاقوں میں خواتین کی صفر معاشی شرکت؟ مکمل خاموشی

ایم ایل اے خاموشی خریدتا ہے، مُلّا اطاعت بیچتا ہے، اور ووٹر سے شکر گزاری کی توقع کی جاتی ہے۔

حقیقی مثالیں: جب مُلّا-ایم ایل اے گٹھ جوڑ نے ووٹنگ ہائی جیک کی

یہ خیالی بات نہیں — یہ زمینی حقیقت ہے۔

1. اترپردیش — مُلّا ایم ایل اے پاور گرڈ

سنبھل، رامپور، بجنور جیسے حلقوں میں ہمیشہ سے بریلوی اور دیوبندی مُلّاؤں کی حمایت سے امیدوار مسلم ووٹ سمیٹتے آئے ہیں۔

2017 اور 2022 میں AIMIM نے کوشش کی مگر وہاں کے مقامی ایم ایل ایز پہلے ہی مُلّا کی منظوری "بک” کر چکے تھے۔

سہارنپور کے ایک دیوبندی عالم نے جمعے کے خطبے میں کہا:

"ووٹ آپ کا حق نہیں، آپ کا ایمان ہے۔ ووٹ اُنہیں دیں جو اسلام کی حفاظت کرتے ہیں۔”

سیکولرزم؟ اردو میں بھی نہیں۔

2. مغربی بنگال — داڑھی سے دھویا ہوا سیکولرزم

ممتا بینرجی کا منتخب کردہ مُلّا-ایم ایل اے اتحاد شامل کرتا ہے:

  • اماموں کی جانب سے ووٹ کی ہدایات
  • ریاست کی طرف سے علما کو وظیفے
  • مخالف لیڈروں پر فتوے کہ "وہ اسلام دشمن ہیں”

2021 میں امام نور الرحمان برکاتی، جو تلوار لہراتے جلسوں میں مشہور ہیں، نے کہا:

"جو دیدی کی حمایت نہیں کرتا، وہ اسلام کا دشمن ہے۔”

FIR؟ نہیں۔
لیکن BJP کے کئی کارکنوں پر "مذہبی جذبات مجروح کرنے” کا الزام لگا۔

3. کیرالہ — سب سے خاموش ووٹ بینک

IUML (انڈین یونین مسلم لیگ) مُلّا-ایم ایل اے اتحاد کی تنظیمی شکل ہے۔
ملپّورم، کوژیکوڈ، کنّور میں ایم ایل ایز کھلے عام مسجد میں سیاسی حکمت عملی سیشنز میں شریک ہوتے ہیں،
جہاں علما ووٹ ڈالنے کے “حکمت عملی” طریقے سکھاتے ہیں۔

کیرالہ میں مسئلہ مذہبی سیاست کا نہ ہونا نہیں،
بلکہ اسے دانشور طبقے کے ذریعے چپ چاپ جائز قرار دینا ہے—
جو IUML کو "ترقی پسند مسلمان” سمجھتے ہیں۔

ترقی پسند؟
جب تک آپ تین طلاق، صنفی اصلاحات، یا خواتین سائنس اساتذہ کے بارے میں سوال نہ کریں۔

ٹوکنیزم کا ٹول کٹ: کیسے یہ اتحاد سیکولرزم کا ناٹک کرتا ہے؟

یہ ہوتا ہے اسٹینڈرڈ پیکج:

  • ایک مدرسے کی دیواروں پر رنگ کروایا جاتا ہے
  • ایک اسکالرشپ اسکیم کا اعلان (آڈٹ کبھی نہیں ہوتا)
  • دوردرشن پر ایک اردو شاعر کی تقریب
  • پارلیمان میں "اسلاموفوبیا” پر ایک بیان

اور بس!
اتحاد کو "شمولیتی حکمرانی” کا نام دے دیا جاتا ہے۔

لیکن زمینی حقیقت:

  • نہ مسلم خواتین کی حفاظت بہتر ہوتی ہے
  • نہ مدرسے جدید ہوتے ہیں
  • نہ مسلم نوجوان STEM، کاروبار یا ایڈمنسٹریشن میں شامل ہوتے ہیں

یہ نمائندگی کے پردے میں ووٹ لوٹنے کا فن ہے۔

کیا یہ صرف "کمیونٹی کی نمائندگی” ہے؟

نہیں۔
نمائندگی ترقی دیتی ہے۔

یہ اتحاد صرف علما کو بااختیار بناتا ہے، عوام کو نہیں۔

یہ یقینی بناتا ہے کہ:

  • امام کی بات بزنس مین سے زیادہ اہم ہو
  • خطبہ نصاب پر حاوی ہو
  • مظلومیت کو ہتھیار بنایا جائے، ترقی کو روکا جائے

حقیقی متاثرین: غریب، تعلیم یافتہ اور باوقار مسلمان

المیہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ نقصان اُن مسلمانوں کو ہوتا ہے جو:

  • سوچتے ہیں، سوال کرتے ہیں
  • ہجاب کے بغیر خواتین ہیں
  • اور وہ نوجوان جو ترقی چاہتے ہیں، نہ کہ تقسیم

یہ طبقہ مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں دینا چاہتا۔
انہیں روزگار، تعلیم اور احترام چاہیے۔

لیکن مُلّا-ایم ایل اے اتحاد انہیں ہمیشہ بنا دیتا ہے:

  • "اقلیتی ووٹ بینک”
  • "جذباتی طور پر نازک”
  • "ذرا سی بات پر ناراض ہونے والے”

یہ اختیار نہیں،
بلکہ سوچی سمجھی کمزور بنانے کی حکمت عملی ہے۔

میڈیا کا کردار: انتخابی نسیان + ہمدرد سرخیاں

مرکزی میڈیا اس دھوکے میں برابر کا شریک ہے:

  • کوئی پجاری مہم چلائے؟ "فرقہ پرستی”
  • کوئی امام کرے؟ "کمیونٹی بانڈنگ”
  • ہندو اُمیدوار رام کا ذکر کرے؟ "خطرناک ہندوتوا”
  • مسلم امیدوار اللہ کا ذکر کرے؟ "ثقافتی ورثہ”

یہ چنندہ نظر نہ صرف گفتگو کو زہر آلود کرتی ہے،
بلکہ مُلّا-ایم ایل اے اتحاد کو تنقید سے بچاتی ہے۔

اس گٹھ جوڑ کا علاج کیا ہے؟ اتحاد کو توڑیں، عقیدے کو نہیں

واضح کریں: مقصد اسلام کو بدنام کرنا نہیں،
بلکہ مذہبی طاقت کو سیاسی اثر سے الگ کرنا ہے
جیسا کہ چرچ، مندر اور ڈیرے کے ساتھ کیا گیا۔

ضروری اقدامات:

  1. الیکشن کمیشن کے قواعد پر سختی سے عمل کروایا جائے—
    انتخابی مہم میں مذہب کی اپیل پر پابندی۔
  2. مدرسوں کی فنڈنگ کا آڈٹ—ہر روپیہ، ہر تقریر۔
  3. حقیقی مسلم لیڈروں کو پروموٹ کریں—ڈاکٹر، سائنسدان، کاروباری افراد، اساتذہ۔
  4. مسلم خواتین کو بااختیار بنائیں—ٹوکنیزم سے نہیں، قیادت کے مواقع دے کر۔
  5. میڈیا تعصب کو بے نقاب کریں—دانشورانہ دہری پالیسیوں کو بےنقاب کریں۔

نتیجہ: داڑھیوں کے ووٹ راج کو توڑیں

مُلّا-ایم ایل اے اتحاد صرف سیاست کا کوئی واقعہ نہیں،
بلکہ ایک نظامی بیماری ہے—
ڈر، علامتی سیاست اور دبے ہوئے اصلاحات کا ایک چکر۔

یہ سیکولرزم کو تماشا بناتا ہے،
اور مسلمان ووٹروں کو اسٹیج پر رکھا گیا کردار۔

یہ مولویوں کو زندہ رکھتا ہے جو پسماندگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یہ ایم ایل ایز کو طاقت دیتا ہے جو ترقی کے بجائے تقسیم پر زندہ ہیں۔

اور سب سے خطرناک بات؟

یہ ترقی پسند مسلمانوں کی آوازیں دبا دیتا ہے
جو سچ بولنے کی ہمت کرتے ہیں۔

اگر ہندوستان واقعی سیکولر جمہوریہ بننا چاہتا ہے،
تو اسے ووٹ جہاد کی اس مشین کو ختم کرنا ہوگا—
جہاں پالیسی سے نہیں، بلکہ دعا سے ووٹ خریدے جاتے ہیں۔

کیونکہ جہاں داڑھیاں بیلٹ کو کنٹرول کرتی ہیں،
وہاں جمہوریت صرف ایک کنگھی کی دوری پر تھیوکریسی بن جاتی ہے۔

🔗 مزید مطالعہ:

📖 Allah vs. Evolution: The Theory Islam Hates More Than Blasphemy
(اسلامی نظریات اور سائنسی فکر کے تصادم پر تفصیلی تجزیہ)

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

About Us

India Insight Hub is your trusted source for insightful analysis on India’s rise, covering geopolitics, AI, technology, history, and culture. We bring bold perspectives on India’s influence in the modern world.

📌 Discover more: 👉 About Us

Email Us: genzenials@gmail.com

Contact: +91 – 73888 12068

ArtiTude @2025. All Rights Reserved.