آزاد سوچ کے خلاف
اسلام اور اختلافِ رائے: جہاں سوال بغاوت ہے اور وفاداری فرض
ذرا تصور کریں کہ آپ ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں سپریم لیڈر صحافیوں کے سوالوں کا جواب نہیں دیتا، تنقید کو غداری قرار دیا جاتا ہے، اور عوام اس حد تک ذہنی طور پر قابو میں ہیں کہ اپنے ہی رشتہ داروں کو شک کی بنیاد پر حکومت کو اطلاع دے دیتے ہیں۔ اب اس نظام پر مذہبی مہر لگا دیں، اور سپریم لیڈر کی جگہ خدا کو رکھ دیں—یہی ہے اسلام میں تنقید کا جواب: خاموشی، فتوے، اور ڈر۔
اگر خدا کوئی برانڈ ہوتا، تو اسلام ایک ایسی ایجنسی ہوتا جو بری ریویو پر مقدمہ کر دیتا، تقابلی اشتہار پر پابندی لگا دیتا، اور وفاداری کے بدلے جنت دیتا۔ یہ اپڈیٹ نہیں لیتا، فیڈبیک برداشت نہیں کرتا، اور سوال کو بغاوت سمجھتا ہے۔
اسلام اور اختلافِ رائے: خدائی آمریت کا ماڈل
شمالی کوریا کے پاس ایک سپریم لیڈر ہے۔ اسلام کے پاس اللہ ہے۔
دونوں نظاموں میں بیانیہ مکمل کنٹرول میں ہوتا ہے۔ تنقید کو سنا نہیں جاتا—ختم کر دیا جاتا ہے۔ ایران یا پاکستان جیسے ممالک میں توہینِ مذہب کے قوانین مذہبی جیل خانوں کے مترادف ہیں۔ اختلاف کرنے والے صرف "منسوخ” نہیں کیے جاتے—انہیں سزائے موت دی جاتی ہے۔
مرتد غدار سمجھے جاتے ہیں۔ اصلاح پسندوں کو منافق قرار دیا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی پوچھے: "نبی ﷺ نے بچی سے شادی کیوں کی؟” تو جواب ہوتا ہے: "چپ رہو! یہ اسلاموفوبیا ہے!”
اگر خدا واقعی ہے، تو شاید اسے کسی کو مارنے کے لیے انسانی مدد کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن بظاہر، دنیا کا سب سے غیر محفوظ فین بیس خدا کا ہے۔
اسلام اور اختلافِ رائے: فتوے تو ہیں، اپڈیٹس نہیں
ایپل سال میں iOS کو سترہ بار اپڈیٹ کرتا ہے۔ اسلام نے چودہ سو سال میں کوئی اپڈیٹ نہیں دی۔ جب خامیاں سامنے آئیں—جیسے غلامی، بچپن کی شادی، یا عورتوں کے حقوق—تو جواب "اصلاح” نہیں بلکہ "خدا سے ڈرو” ہوتا ہے۔
اصلاح کی بجائے، اسلام فتوہ جاری کرتا ہے۔ غلطی سدھارنے کی بجائے، سختی اور ڈر میں اضافہ کرتا ہے۔
یہ مذہب نہیں۔ یہ پرانا سافٹ ویئر ہے، جس کے ساتھ جان سے مارنے کی وارنٹی آتی ہے۔
میڈیا حکمتِ عملی: پہلے چیخو "اسلاموفوبیا!” پھر خاموش کرا دو
اسلام کی میڈیا حکمت عملی سادہ ہے:
- اگر بے نقاب کیا جائے تو کہو "اسلاموفوبیا!”
- اگر سوال پوچھا جائے تو کہو "یہ مغربی سازش ہے!”
- اگر بحث ہو تو کہو "جذبات مجروح ہوئے ہیں!”
یہ پبلک ریلیشنز نہیں، پبلک ریپریشن ہے۔
اسلام خود کو "کامل ترین دین” کہتا ہے، مگر کسی نے اگر صرف اتنا کہہ دیا کہ "عورتوں کو گاڑی چلانے دو؟” تو وہی مذہب ایک جابر بادشاہ کی طرح چیخ اٹھتا ہے۔
منفی رائے کی سزا؟ موت!
عیسائیت یا ہندومت پر تنقید کریں، چھوڑ دیں، مذاق اُڑائیں—زیادہ سے زیادہ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ ہوگی۔ اسلام؟ فرانسیسی سڑک پر سر قلم کروا دیتا ہے۔
سلمان رشدی کو کتاب لکھنے کے کئی سال بعد چاقو مارا گیا۔ شارلی ہیبڈو کے کارٹونسٹ قتل ہوئے۔ سابق مسلمان یوٹیوبرز روپوش زندگی گزار رہے ہیں۔
ایسا کون سا مذہب ہے جسے تنقید سے بچانے کے لیے باڈی گارڈز رکھنے پڑتے ہیں؟
یہ صرف عدم برداشت نہیں، بلکہ کمزوری کا ہتھیار ہے۔
معتدل مسلمان: خاموش شراکت دار
لوگ کہیں گے، "سب مسلمان ایسے نہیں ہوتے!” درست۔ لیکن مسئلہ عقیدے کے ساتھ ہے۔
معتدل مسلمان اکثر شدت پسندوں کا مقابلہ نہیں کرتے۔ کیوں؟ کیونکہ شدت پسند آیات کے ساتھ آتے ہیں، اور معتدل صرف جذبات کے ساتھ۔ بنیاد پرستوں کے پاس دلائل ہیں، اور لبرلز کے پاس ٹیڈ ٹاکس۔
اسلام تنقید برداشت نہیں کرتا کیونکہ اس کی بنیاد اطاعت پر ہے، برداشت پر نہیں۔ اسی لیے معتدل افراد تنقید کرنے والوں کو چپ کراتے ہیں، اصلاح کی کوشش نہیں کرتے۔

ایک ایسا اسلام جو سوالات کا خیرمقدم کرے—تصور کریں!
اگر اسلام واقعی اپنی امیج بہتر کرنا چاہتا تو کسی PR ایجنسی کی خدمات لیتا۔ تصور کریں اشتہار:
- "اسلام: اب خواتین کے حقوق کے ساتھ!”
- "مرتد قوانین ختم—ہم مذہب ہیں، فرنچائز نہیں!”
مگر نہیں، وہ PR مینیجر نہیں رکھتا، مفتی رکھتا ہے۔
تنقید کا جواب مکالمہ نہیں، بلکہ فتوے ہوتے ہیں۔
یہ مذہب نہیں۔ یہ برانڈنگ ہے، جہنم کی دھمکی کے ساتھ۔
سوشل میڈیا: جب اسلام بن جاتا ہے شمالی کوریا
اسلام پر ذرا سی تنقید کریں—ڈی ایم میں فتوے، جان سے مارنے کی دھمکیاں، اکاؤنٹ ریپورٹس۔
گنیش پر میم پوسٹ کریں—ہندو آنٹیاں ایموجی بھیج دیں گی۔ محمد پر کارٹون بنائیں—کسی لسٹ پر آ جائیں گے۔
اسلام آن لائن "عزت” مانگتا ہے، مگر ناقدین، خواتین، ہم جنس پرستوں، یا دوسرے مذاہب کو کوئی عزت نہیں دیتا۔
یہ باہمی عزت نہیں۔ یہ مذہبی فاشزم ہے، فلٹر لگا کر۔
تنقید نفرت نہیں—صحت کا معائنہ ہے
ہر آئیڈیا پر تنقید ہونی چاہیے۔ تبھی وہ بہتر ہوتا ہے۔ سائنس، جمہوریت، ادب—سب ترقی کرتے ہیں جانچ پڑتال سے۔
مگر اسلام میں تنقید کفر ہے، بحث گستاخی ہے، اصلاح ارتداد ہے۔
اسی لیے یہ مذہب طاقت، شک، اور طہارت کی پولیسنگ کے قرونِ وسطیٰ کے چکر میں پھنسا ہوا ہے۔
جسے سوال نہ کیا جا سکے، اسے ٹھیک بھی نہیں کیا جا سکتا۔
یہ سب بھارت میں کیوں اہم ہے؟
بھارت ایک جمہوریت ہے۔ یہاں ہر خیال، بشمول مذہبی، تنقید کے قابل ہونا چاہیے۔
آپ سیکولر فوائد تو چاہتے ہیں، مگر تھیوکریٹک نظریات چھوڑنے کو تیار نہیں۔
سابق مسلمانوں کی تحریک نفرت نہیں، سچائی ہے۔ یہ مسلم مخالف نہیں، فاشزم مخالف ہے۔
اگر آپ کے خدا کو PR ٹیم کی ضرورت ہے، تو وہ خدا نہیں—برانڈ ہے، بحران میں۔
اور اگر آپ کا مذہب تنقید پر شمالی کوریا کی طرح ردعمل دیتا ہے، تو وہ ایمان نہیں—خوف ہے۔
اسلام اور اختلافِ رائے: سچ پنپتا ہے، خوف بکھرتا ہے
اسلام کا تنقید سے بچاؤ طاقت نہیں، بلکہ عدم تحفظ ہے، جو تقدس کی چادر میں لپٹا ہے۔
سچ سوالات کو خوش آمدید کہتا ہے۔ آمریت انہیں کچل دیتی ہے۔
اگر اسلام پر سوال اٹھانے سے آپ کو جیل، فتوے یا موت ملتی ہے، تو مسئلہ سوال میں نہیں، مذہب میں ہے۔
کیونکہ آخر میں، خدا کو PR ٹیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مگر کمزور نظریات کو ہمیشہ ہوتی ہے۔