چین میں ایک مشہور کہاوت ہے:
“حکام نمبر پیدا کرتے ہیں، اور نمبر حکام پیدا کرتے ہیں۔”
یہ بجا طور پر GDP اعداد و شمار پر صادق آتی ہے — وہ شاندار ارقام جو ملکی اقتصادی صحت کی عکاسی کرتی ہیں۔ کئی برسوں سے چین کی GDP نمو مثالی طور پر حکومت کے ہدف (مثلاً 6.9٪، 6.5٪، 6.0٪) پر نظر آنے میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔ ناقدین اس "GDP فریب” کو انسان ساختہ قرار دیتے ہیں: نہ معاشی، بلکہ تخلیقی اکاؤنٹنگ کی نوعیت میں۔ سابق وزیر اعظم لی کیچیانگ نے ایک ایسے ہی موقع پر اقرار کیا تھا کہ چین کے GDP اعداد “man‑made اور unreliable ہیں” — اور انہوں نے اپنی مشہور ‘لی کیچیانگ انڈیکس’ متعارف کروائی: بجلی کی کھپت، ریلوے کارگو، اور بینک قرض کی بنیاد پر اقتصادی حقیقی حالت کا اندازہ لگانے کے لئے۔ جب اعلی عہدے دار خود اپنی سرکاری اعداد پر اعتماد نہیں کرتے، تو ظاہر ہے کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔
کھلی عقل
GDP میں چال بازی پر غور کریں:
چین ایک وسیع اور پیچیدہ معیشت ہے — 31 صوبے، سیکڑوں شہر، ہزاروں کاؤنٹیاں۔ نظریاتی طور پر GDP کے حساب میں چال بازی عملاً آسان نہیں، مگر غالب طور پر مقامی حکام کے ترقیاتی اہداف کا تعلق ان سے ہے، جس سے جھوٹ بولنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔

کارنامہ ساز
- بیجنگ صوبوں کو سالانہ GDP ہدف دیتا ہے (جیسے "تقریباً 7٪”)
- صوبہ اپنا ہدف بڑھاتا ہے، شہر اپنا، ضلع اپنا
- جو حد یا زیادہ ہوجائے، اسے ترقی؛ جو کم، ناکامی
اس صورت حال میں کم-معیار ترقیاتی منصوبے جیسے بے مقصد ہائی ویز، عوامی چوراہے یا فیکٹریاں بلوا کر GDP بڑھایا جاتا ہے تاکہ سرمایہ کاری کے اعداد بہتر نظر آئیں — مگر اس کا خمیازہ لانگ ٹرم معاشی نقصان کے طور پر ملتا ہے۔
نمبروں میں ہیر پھیر
کبھی کبھار تو اعداد ہی گھڑے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، لِاوننگ میں 2011–14 کے دوران GDP تقریباً 20٪ بڑھا چڑھا کر ظاہر کیا گیا تھا، جس کا 2017 میں اعتراف ہوا۔ ان پر دیگر صوبے بھی شامل تھے جیسے اندرونی منگولیا اور تیانجن۔
وبا کی صورتحال
COVID-19 کے وقت، جب دنیا میں اکثر معیشتیں مندی کا شکار تھیں، چین نے +2.3٪ ترقی کا دعویٰ کیا — کچھ مبصرین کے مطابق حقیقی اعداد اس سے کم تھے۔ جی ڈی پی کی وقتاً فوقتاً حیران کن ہمواری؟ بے شک، یہ smooth کرنے کا نتیجہ ہے، جیسا کہ سابق Fed سربراہ بن برننکی نے بھی اشارہ دیا تھا۔ “GDP فریب” کے گہرے اثرات
- پالیسی کی غلط سمتیں
اگر حکومت کو بڑھا چڑھا کر اعداد ملیں، تو وہ ضرورت سے کم محرک (stimulus) دے سکتی ہے، یا سرمایہ غلط جگہ لگا سکتی ہے۔ ایک research نے پایا کہ مقامی حکام قلیل المدت GDP پراجیکٹس کو ترجیح دیتے ہیں جس نے مستقبل میں معاشی بے کار سرمایہ کاری کو فروغ دیا ہے۔ - عالمی ساکھ کا نقصان
بین الاقوامی سرمایہ کار چہرے کی چمک سے بہت سوچتے ہیں۔ اگر مسلسل نمبروں میں تذبذب ہو تو خطرہ برداشت کے عوض مزید نقد مانگی جاتی ہے — سرمایہ کی لاگت بڑھ جاتی ہے — چین کی اشاریہ ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ - گھریلو فریب
ڈر ہوتا ہے کہ اگر پہلے سے بڑھا چڑھا کر رپورٹ کیے گئے GDP اعداد سچ بتادیے جائیں تو ایک دم کمی سامنے آجائے گی، جس سے انتظامیہ کی بدنامی خطرہ بنتی ہے۔ لہٰذا حقیقت چھپائی جاتی ہے — اور مسائل بلا روک ٹوک بڑھتے جاتے ہیں۔
خبردار رہنے والے اشارے
- بجلی کی کھپت — صنعتی سرگرمی کے لئے اچھا مظہر
- ریلوے کارگو — پیداوار و تقسیم کا بالواسطہ اشارہ
- تجارت کے متوازی ڈیٹا — پارٹنر ممالک کی درآمدات سے تقابل
- ٹیکس آمدنی — GDP بڑھے، مگر ٹیکس نہ بڑھے تو شبہ ہوتا ہے
- رات کی روشنی کے سیٹلائٹ اعداد — معاشی سرگرمی کی چھت توڑ پیمائش
چین کی اپنی کوشش
چین کے مرکزی حکومت نے اب اعداد و شمار کی شفافیت کو بہتر بنانے کی بے شمار کوششیں کی ہیں۔ NBS کے لئے ریفارمز لائے گئے، قومی شماریاتی سروے کیے گئے، 2020 میں بڑے معاشی سروے کے بعد GDP ریویژن بھی ہوا۔ مگر جب تک ترقیاتی اہداف سے جابھڑی کڑا منسلک رہیں گے، خود فریب کی ترغیب موجود رہے گی۔
حالیہ رویے
2023–24 کی ترقی حکومتی اہداف (مثلاً ~5.5٪) سے کم رہی۔ یہ یا تو تسلیمِ حقیقت ہے، یا اعداد کی حد تک smooth ہوا ہے — کسی حد کے بعد فریب بے نقاب ہو جاتا ہے، ورنہ وہ اپنی ہی قوتِ تحمل کھو دیتا ہے۔
مستقبل میں کیا فرق پڑتا ہے؟
اگر کسی سال چین نے 6٪ بجائے 4٪ ترقی دکھائی ہو، عام آدمی تو فرق محسوس نہیں کرتا، مگر پیمائی کی شفافیت حکمرانی کے معیار کی علامت ہے۔ ہندوستان اور دیگر معیشتیں اس میں بہتر مانیٹرنگ کر کے خطوط کھینچ سکتی ہیں۔ چونکہ عالمی ادارے (IMF، World Bank) چین کے GDP ڈیٹا کو عالمی ترقی میں شامل کرتے ہیں، اس میں مبالغہ پوری دنیا کی پیشین گوئیوں (مثلاً اشیائے خوردونوش قیمت، توانائی، ماحولیاتی تجزئیات) کو متاثر کرسکتا ہے۔
جیو پولیٹیکل خطرہ
اگر حقیقت میں ترقی کم ہو لیکن ریاست اس کا احاطہ کرتی رہے، تو حکومت داخلی ناخوشی اور بے یقینی کو دبانے کے لئے بیرونی جارحیت کا راستہ اپنالیتی ہے۔ جبکہ عالمی معاشرے میں مبالغہ پر مبنی طاقت کی تصویر چین کو غیرضروری عزت دلواسکتی ہے ۔ لہٰذا شفافیت ریاست کی حقیقت پسندی میں اضافہ کرے گی۔
خلاصہ:
چین کے GDP اعداد و شمار ایک آئینے کی طرح ہیں: حقیقت سے عکس ضرور ظاہر ہوتا ہے، مگر بدلاؤ کے ساتھ۔ اگر آپ اسے بحیثیت معاشی صحافی، سرمایہ کار یا سیاست شناس دیکھیں تو شاندار اعداد پر بلائنڈلی نہ بھروسہ کریں — چھانٹ کر پڑھیں۔ کیونکہ معاشی سچائی وہی ہے جو آپ کے سامنے وقتاً فوقتاً واضح ہوجاتی ہے، نہ کہ ایک بار باندی گئی عدد کی روشنی سے۔
یاد رکھیں:
جی ڈی پی کی حقیقت کو پہچاننے کا پہلا قدم یہی ہے—نمبرز کا ماسک ہٹانا۔
مزید پڑھیں:
XI Jinping Economic Unrest: The Hidden Crisis behind China’s Calm