ایک دیہی گاؤں میں تنہا مرد، جو چین کے 35 ملین "بقیہ مردوں” کی ایک علامتی نمائندگی ہے — وہ لوگ جو طویل عرصے تک ایک-بچہ پالیسی کے بعد دلہن کی کمی کا شکار ہیں۔ بھاری جہیز کی مانگ اور بدلتے ہوئے معاشرتی رجحانات نے چین میں شادی کے بحران کو ہوا دے دی ہے۔
شادی کا رجحان: “میں کرتا ہوں” کم اور “نہیں کرتا” زیادہ
کبھی چین میں شادی کرنا فطری عمل تھا—تقریباً ہر بالغ انسان کے لیے لازم سمجھا جاتا۔ خاندان خوشی مناتے، آتشبازی ہوتی، اور یہ سماجی ڈھانچے کی بنیاد تھی۔ مگر آج کل شادی کی گھنٹیاں خاموش پڑ گئی ہیں۔
2024 میں صرف 6.1 ملین جوڑے نے شادی رجسٹر کروائی—چالیس برسوں میں سب سے کم۔ 2013 میں 13.5 ملین شادیوں کے مقابلے میں اب یہ آدھی ہیں—پچاس فیصد کمی، یعنی شادیوں میں تقریباً 60 فیصد کمی۔ ریاستی میڈیا بھی اسے "2013 کے بعد سے ایک گہری کھائی” قرار دے چکا ہے۔
نوجوان ترجیحات میں تبدیلی
- تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی پر توجہ۔
- گھر خریدنے کی بڑھتی لاگت۔
- جہیز (bride price) کی بھاری مانگ نے شادی مشکلات کو مزید بڑھایا۔
لوگ تعداد کم ہوگئی
1980 تا 2015 کی ایک بچے کی پالیسی کی وجہ سے ۲۰ اور ۳۰ کی دہائی کے افراد کی تعداد کم ہوئی ہے۔ شادی کا رجحان کم = کم عمر جوڑے + کم بچوں کی پیدائ
پیدائش کی شرح کم، آبادی کا بحران
۹۵ فیصد بچوں کا پیدا ہونا شادی شدہ جوڑے سے ہوتا ہے۔ جب شادی کم ہوگی، تو پیدائش بھی کم ہوگی۔ 2022 میں چین کی آبادی پہلی بار 1960 کی عظیم قحط کے بعد کم ہوئی۔
اگر شادی کی تعداد میں گرنا جاری رہا تو یہ ڈنمارک ایک مجرمانہ راہ پر گامزن ہے۔
طلاق کا رجحان
- 2019 میں تقریبا ۴ ملین طلاقیں (ہر دو شادی پر ایک طلاق)۔
- حکومت نے 2021 میں "۳۰ دن کا انتظار” طلاق کی شرط رکھی تاکہ فوراً خواہشوں سے بچا جاسکے۔
- 2024 میں طلاق کی تعداد بحال ہوکر تقریباً 2.82 ملین ہو گئی۔
اس کا نتیجہ: شادی نہ کرنے یا طلاق شدہ افراد کی تعداد آج چینی معاشرے میں ریکارڈ حد تک بڑھ گئی ہے۔
“بقیہ مرد” اور “بقیہ خواتین”
- شادی کے عمر کے مردوں میں تقریباً 30–35 ملین اضافی مرد باقی ہیں۔
- خواتین “بقیہ خواتین” کے طور پر پہچانی جاتی ہیں: تعلیم یافتہ، شہری طبقے کی ۲۵–۲۷ سال سے زائد، جو شادی نہیں کر رہیں۔
- معاشرتی توقعات اور ترجیحات میں فرق نے شادی کی مارکیٹ کو ایک پلٹے ہوئے مثلث کی شکل دی ہے—جہاں باصلاحیت خواتین بیکار رہ جاتی ہیں اور کم تعلیم یافتہ مرد غیر شادی شدہ رہ جاتے ہیں۔
جہیز (Bride Price)
- کئی علاقوں میں جہیز 300,000 RMB (تقریباً $50,000) یا اس سے زائد پہنچ چکا ہے۔
- 2023 میں قومی اوسط تقریباً 69,000 RMB (~$9,500) تک رہی۔
- اس نے ناخواندہ یا کم آمدنی والے خاندانوں کو قرض لینے یا اپنی جائیداد بیچنے پر مجبور کر دیا۔
- بعض بینکوں نے جہیز کے لیے قرض کی سکیم متعارف کرائیں—مثلاً گانسو صوبے نے 60,000 RMB کی حد مقرر کی، مگر توقعات اب بھی بڑے انداز میں موجود ہیں۔
معاشرتی اور اقتصادی خطرات
- ڈیموگرافک ٹائم بمب: کم شادیوں → کم بچے → تیز آبادی بڑھاپا → نوجوانوں کی کمی → اقتصادی سست روی۔
- مزدور بحران اور بڑھتی عمر: چین کو جاپان کی طرح مزدوروں کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے، مگر دولت کم ہوگی۔
- اثراتی بیڑا: کم بچے = کم تنخواہ دار لوگ بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے — “4‑2‑1” خاندانوں کا خطرہ بڑھ گیا۔
- سماجی غیر استحکام: خاص طور پر غیر شادی شدہ مرد، جن کی تعداد بڑھ رہی ہے، بیروزگاری یا عدم استحکام کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
- جنیڈر ٹریفکنگ: شادی کی مناسبت سے خواتین کی قلت نے بعض جگہوں پر خواتین کی خرید و فروخت کی منڈی بھی بڑھی۔
🇮🇳 بھارت کے لیے عبرت
- بھارت کے بھی بعض علاقوں میں جنس کے توازن میں فرق ہے—یہ چین سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
- شہری نوجوانوں میں سستی رہائش اور کم عمر ازدواجی حمایت والے رجحانات ابھرے ہیں۔
- بھارت اب بھی شادی کی شرح مستحکم رکھے ہوئے ہے، مگر زندگی کی تبدیلیاں طویل مدتی اثرات کا عندیہ دیتی ہیں۔
خلاصہ
چین کی بڑھاپے کی عمر، کم شادی، خشکی کی شرحِ طلاق، بھاری جہیز اور جنس کے توازن کی غلطی—ان سب نے ایک سنگین ترین معاشرتی–معاشی بحران کی تشکیل کی ہے۔ یہ صرف نکاح کی کہانی نہیں؛ یہ قومی سالمیت، درجۂ زندگی، اور مستقبل کی اقتصادی ترقی کی کہانی ہے۔
اگر بھارت یہ سبق سمجھ کر اپنی معاشرتی بنیادوں کو مضبوط رکھے، تو وہ کافی حد تک محفوظ رہ سکتا ہے۔

“بقیہ خواتین” (Leftover Women)
“بقیہ خواتین” سے مراد عام طور پر تعلیم یافتہ شہری خواتین ہوتی ہیں جن کی عمر 25–27 سال سے زیادہ ہے اور وہ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں۔ یہ اصطلاح 2000 کی دہائی میں ریاستی میڈیا کے بیانیے کا حصہ تھی، جس نے خواتین پر جلد شادی کرنے کا دباؤ ڈالا۔ مگر اب وقت بدل رہا ہے—ان میں سے کئی اس لیبل کو تسلیم نہیں کرتیں اور اپنی مرضی سے غیر شادی شدہ زندگی یا تاخیر سے شادی کا انتخاب کر رہی ہیں۔
سماجی پیچیدگی: شراکت میں میل نہیں
سماجی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو شادی کی مارکیٹ میں ایک عدم توازن ہے:
- تعلیم یافتہ خواتین عام طور پر برابر یا زیادہ معیار والے شریکِ حیات کو ترجیح دیتیں ہیں،
- جب کہ اعلیٰ طبقے کے مرد اکثر کم عمر یا کیریئر سے کم مائل خواتین کو ترجیح دیتے ہیں۔
نتیجہ؟ اعلیٰ تعلیمی یا پیشہ ور خواتین میں سے کچھ خوشی سے غیر شادی شدہ رہتی ہیں، جبکہ کم تعلیم یافتہ اور خصوصاً دیہی مرد اکثر مجبوراً غیر شادی شدہ رہ جاتے ہیں۔ یہ شادی کی مارکیٹ میں "الٹی مثلث” کی صورت ہے، اور اسے پالیسی کے ذریعے حل کرنا آسان نہیں۔
جہیز کے انفلیشن کا بحران
شادی کی اس تنگی کی ایک وجہ اور نتیجہ “برا ئڈ پرائس” (彩礼، caili) میں شدید اضافے کی شکل میں سامنے آیا ہے:
- یہ رقم یا سامان ہے جو دولہے کا خاندان دلہن کے خاندان کو دیتا ہے—یعنی ایک تحفہ، مگر اب ایک بھاری “شادی داخلہ فیس” بن چکی ہے۔
- کچھ دیہی علاقوں میں 300,000 RMB (تقریباً $50,000) تک پہنچ گئی ہے۔
- 2023 میں قومی اوسط تقریباً 69,000 RMB (~$9,500) رہا، جو مسلسل بڑھ رہا ہے۔
- خاندان قرض لے کر – اپنا مویشی بیچ کر – اور نجی بینکوں سے قرض لے کر شوق نہ ہونے کے باوجود دولہا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
کئی بینکس نے شرائط کے تحت جہیز کے لیے قرض کی سہولت فراہم کی، اور کچھ مقامی حکومتوں نے حد بندی یا روک تھام کے اقدامات بھی کیے (مثلاً گانسو صوبہ نے 60,000 RMB کی حد رکھی)، مگر یہ کوششیں جزوی طور پر کامیاب رہیں، کیونکہ ثقافتی توقعات قانون سے کم اثر رکھتی ہیں۔ خواتین کی قلت کی وجہ سے شادی کے بازار میں "قیمتیں” بلند رہتی ہیں۔
شادی کی تجارتی نوعیت
جہیز کے بڑھتے رجحان سے شادی کی ایک تجارتی شکل آشکار ہوئی ہے، جس سے لوگوں میں تلخی پھیل رہی ہے:
- بہت سے نوجوان مذاق میں کہتے ہیں کہ شادی کروانا تو الگ بات ہے، خود شادی کرنے کی بات کریں۔
- ایک وائرل سوشل میڈیا پوسٹ میں مختلف صوبوں میں جہیز کی “روایتی قیمتیں” بیان کی گئیں، جس نے محبت اور مادیت کے درمیان بحث چھیڑ دی۔
ایک جانب کچھ خواتین کہتی ہیں کہ جہیز اُن کے معیار اور مالی تحفظ کی ضمانت ہے—خاص طور پر کمزور پنشن نظام کے حامل دیہی علاقوں میں۔ یہ خاندانوں کے درمیان اسلحہ کی طرح سمجھا جاتا ہے۔
نتائج: ایک معاشرتی اور اقتصادی بم
- آبادیاتی بحران:
- شادیوں میں کمی → بچوں کی پیدائش میں کمی → بڑھاپا بڑھتا ہے → ورک فورس سکڑتی ہے → اقتصادی ترقی سست ہوتی ہے۔
- اقتصادی دباؤ:
- جرمنی اور جاپان کی طرح چین کو بھی کم مزدور، بڑھتی عمر اور تولی توجہ دینے والے نظام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
- "ڈیموگرافک ڈیوڈنڈ” ختم ہو چکا، اور کم بچے بزرگوں کی دیکھ بھال کے چیلنج بن سکتے ہیں۔
- سماجی استحکام کا خطرہ:
- غیر شادی شدہ مردوں کی بڑی تعداد غیر استحکام، سماجی انتشار یا جرائم کے خطرے سے وابستہ ہو سکتی ہے۔
- دلہن کی تجارت جیسے مسائل سامنے آ رہے ہیں—خواتین کی خرید و فروخت اور اغوا کی خبریں عوامی غم و غصے کا باعث بنی ہیں۔
- خواتین کا حقوق کا شعور:
- عورتیں اب طلاق یا بدسلوکی والی شادی بدلنے کا حق زیادہ طلب کرنے لگی ہیں۔
- “کوئی شادی نہیں، کوئی بچے نہیں” جیسا ذاتی نعرہ سوشل میڈیا پر مقبول ہو رہا ہے، جو پالیسی کے اثر سے آگے چلتا ہے۔
🇮🇳 بھارت کے لیے سبق
چین کا تجربہ بھارت کے لیے بھی کسی آئینہ سے کم نہیں:
- بھارت میں بھی بعض معاشروں میں جنس کے فرق کی وجوہات موجود ہیں—ناقص گورننس اور سماجی رویوں کا اثر ابھر سکتا ہے۔
- شہری نوجوانوں کے لیے رہائش اور اجرت کے مسائل بھارت میں بھی موجود ہیں۔ آفٹرنس: سستے رہائش کے پروگرام، خاندانی مدد یا خاندانی مراعات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
- سماجی تبدیلی تیزی سے آ رہی ہے؛ بھارت کو اس تبدیلی سے ہم آہنگ رہنا ہو گا—تعلیم، احتساب، پالیسی اور انسانی حقوق پر مبنی اقدامات سے۔
خلاصہ
یہ مضمون بتاتا ہے کہ چین کے سماجی و اقتصادی مشکلات—خواتین کی شادی نہ ہونا، بڑھئی جہیز، اور مردوں کی قلت—ایک سنگین مستقبل کا عندیہ رکھتے ہیں۔
یہ صرف ایک شادی کا مسئلہ نہیں، بلکہ معاشرے، معیشت اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا الوغ ہے۔ چینی مثال ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اصلاحات اور شفاف پالیسی کے بغیر تبدیلی قابلِ تسلیم ہوجاتی ہے۔
اختتام:
شی جن پنگ کی معاشی بے چینی: چین کے سکون کے پیچھے چھپا ہوا بحران